Wednesday 21 May 2014

گوریلا جنگ کیوں ہوتی ہے؟
آغا امیر حسین
معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ و جدل انسان کی فطرت میں شامل ہے ہابیل قابیل سے لے کر آج تک کا سفر، مختلف مراحل میں مختلف قسم کا سامان جنگ، گھوڑوں سے لے کر جدید ترین ٹرانسپورٹ، بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک، پتھر سے لے کر تلوار، بندوق سے کلاشنکوف تک، کم فاصلے تک مار کرنے والی توپوں سے لے کر آج کے دُور مار خوفناک میزائل، پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم کی تاریخ سب کچھ سامنے ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے 67 سال کا ابتدائی عرصہ جس میں چانکیہ کے پیروکار قیادت کا ریکارڈ ، ہیرو شیما ناگا ساکی پر امریکی ایٹمی حملہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی جسے دیکھ کر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی روحیں بھی شرمارہی ہیں۔ چند بڑے اور ترقی یافتہ ملکوں نے خود ہر قسم کی تباہی پھیلانے والے کیمیکل اور ایٹمی ہتھیار بنا کر اپناایک کلب بنا رکھا ہے۔ زور و زبردستی دوسرے ملکوں کو انسانیت کے نام پر نہ تو اس کلب کا ممبر بنانے کو تیار ہیں اور نہ ہی انہیں اپنے ذرائع اور وسائل سے نئے ہتھیار بنانے دیتے ہیں۔ یہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک ان ممالک پر جو ابھی کم ترقی یافتہ یا نو آزاد ممالک ہیں حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ روایتی جنگ اُس وقت لڑتے ہیں جب وہ اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کے ذریعہ یقین کر لیتے ہیں کہ مخالف ملک کے پاس ان کا مقابلہ کرنے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی سکت جیساکہ ہم نے حال ہی میں عرا ©ق، افغانستان اور دوسرے مسلم ممالک میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں کو دیکھا ہے۔ طاقت، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مسلم ممالک، خاص طور پر پاکستان کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ الحمدللہ پاکستان کی دفاعی افواج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں، گزشتہ 67 سال کی بھارت کی سازشوں، ریشہ دوانیوں اور پہ در پہ پاکستان کی سلامتی کے لیے اُس کی کوششوں کے راستے میں افواجِ پاکستان رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ مشرقی پاکستان کو زبردستی بنگلہ دیش بنانے کے لیے بھارت کی تمام سازشیں اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ پاکستان ایک آزاد، خودمختار ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق دوسرے ممالک کی طرح وہ بس رہا ہے۔ اُسے دولخت کرکے بھارت امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک طاقتور مسلم ملک پاکستان کے دشمن ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم جان میجر نے کہا تھا کہ یورپ کے وسط میں مسلم ریاست بوسنیا برداشت نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو 1970ءکی جنگ کے حوالے سے اندرا گاندھی کو احساس دلانے میں ناکام ہوگئے تو انہوںنے واپسی سے پہلے رسمی ملاقات میں اندراگاندھی سے کہا کہ آپ نے میرے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے کہ میں واپس جا کر پاکستانی عوام کو مسلح کروں اور انہیں ایک طویل جنگ کے لیے تیار کروں۔ بھٹو صاحب کی یہ بات اور اس کے عوامل اور نتائج اندرا گاندھی کی فوراً سمجھ میں آگئے چنانچہ اس نے رات گئے تمام متعلقہ لوگوںکو طلب کیا، شملہ معاہدہ طے پایا اور پریس کانفرنس بھی ہوگئی۔ بھارت اور دوسری تمام اسلام دشمن قوتوں سے نمٹنے کے لئے پاکستانی عوام کو منظم اور مسلح کرنے کی جتنی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ بھٹو صاحب انقلابی سوچ کے حامل تو ضرور تھے ان کی تقریروں میں پاکستان کا عام آدمی اپنے لیے درد محسوس کرتا تھا اس لیے وہ نجات دہندہ کے طور پر لوگوں کے محبوب لیڈر بن گئے لیکن بدقسمتی سے بھٹو صاحب کا خاندانی پس منظر جاگیردارانہ تھا، حالات کے جبر نے انہیں انقلابی لیڈر تو بنا دیا لیکن وہ خود ذہنی طور پر اسلامی سوشلزم کے ذریعہ درمیانی راستہ ڈھونڈتے رہے۔ ایوب خان کے ساتھی وزیر زمیندار، جاگیر دار، تمن دار اور نواب وغیرہ ان کے اردگرد جمع ہوگئے، پارٹی پر عوامی اثرو رسوخ ختم ہوگیا وہ دن اور آج کا دن پیپلز پارٹی بائیں بازو کی دوسری جماعتوں جیسی ہوگئی ہے۔ بے نظیر کے دور میں بھٹو صاحب کی شہادت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے ترقی پسند پروگریسو پارٹی ہونے کے تاثر کو تقویت ملی لیکن بے نظیر بھٹو بھی پیپلز پارٹی کو ایک عوامی جمہوری روایات کی حامل پارٹی نہ بنا سکیں حتیٰ کہ اپنی جان قربان کر دی۔ اس کے بعد سے تاحال پیپلز پارٹی پاکستان کی بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک موروثی سیاسی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ اس عرصے میں پاکستان کے دینی مدارس نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں اور مختلف مسالک کے حوالے سے اسلام میں تقسیم در تقسیم کرتی چلی گئیں۔ امریکہ نے سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے بعد پاکستان میں اپنے منظور نظر آمر ضیاءالحق کے ذریعے شمالی وزیرستان میں ”مجاہدین“ کو گوریلا جنگ لڑنے کی تربیت دلائی، اسلحہ دیا اور بھاری تنخواہیں دیں۔ اس مہم میں القائدہ نے مرکزی کردار ادا کیا، اسلامی دنیا سے ہزاروں کی تعداد میں جنگ جُو بھرتی کرکے منظم کیا اور انہیں روس کے خلاف گوریلا جنگ میں جھونک دیا۔ افغانستان کا معاشرہ ماحول اور حالات ان کے لیے آئیڈیل تھے جس کی وجہ سے روس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا بالاخر روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔ امریکہ نے اپنی روایت کے مطابق پاکستان کے ساتھ بے وفائی کی، ان مجاہدین کی تنخواہیں وغیرہ بند کر دیں، پورے معاملے سے دست کش ہوگیا۔ افغان مہاجرین اور مجاہدین کا سارا بوجھ پاکستان پر آن پڑا۔ یہ مجاہدین جو اب پاکستانی طالبان کا نام اختیار کرچکے تھے نے پاکستان دشمن طاقتوں کے ساتھ ساز باز کرکے پاکستان کو اپنا نشانہ بنا لیا۔ انہوں نے جارحانہ حکمت عملی کے تحت پاکستان کے علاقے سوات پر قبضہ کر لیامجبوراً حکومت کو ان کی سرکوبی کرنے کے لئے فوجی کارروائی کرنی پڑی، چند روزہ مقابلے کے بعد یہ پاکستانی طالبان پسپا ہوگئے، کچھ افغانستان میں باقی شمالی وزیرستان میں جا چھپے جہاں بیٹھ کر انہوں نے بھارت اسرائیل اور امریکہ سے گٹھ جوڑ کرلیا۔ پاکستان کے خلاف کراچی، اسلام آباد، پورے ملک میں دہشت گرد سرگرمیاں شروع کر دیں، خودکش حملے، بم دھماکے اور دوسری کارروائیوں کے ذریعے 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا حتیٰ کہ افواج پاکستان، پیراملٹری فورسز اور پولیس کو بھی نشانہ بنانے سے باز نہ رہے، قومی اداروں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے حکومت کوئی حکمت عملی ترتیب نہ دے سکی اور خود قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئی۔ عوام کو ظالم درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ طالبان کے پاکستانی مذہبی رہنما جو اصل میں ان کے سرپرست ہیں اور طالبان کی اکثریت ان ہی کے مدرسوں سے تعلق رکھتی ہے، وہ کس منہ سے ان باغیوں کی سرکوبی کےلئے عوام کی آواز کے ساتھ آواز ملا سکتے ہیں؟ ان کی کوشش ہے کہ حکمرانوں کو جمہوریت کے نام پر الجھائے رکھو اور طالبان کو زیادہ سے زیادہ مراعات دلوا کر پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کر لیا جائے۔ پاکستان کی کوئی بھی آئینی قانونی حکومت منتخب غیر منتخب انہیں مراعات دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ پاکستان کی مسلح افواج اس سارے معاملے میں دو ٹوک رائے رکھتی ہیں اصولاً تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے اعلیٰ ترین مفاد میں فیصلہ کرے اور باغیوں کو سرنڈر کرنے کے لیے 48 گھنٹے کا نوٹس دے۔ افسوس حکومت معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دو ٹوک فیصلے کرنے کی قوت سے محروم ہے۔ روایتی جنگ اور گوریلا جنگ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ الحمدللہ پاکستانی افواج گوریلا جنگ کی بھی ماہر بن چکی ہیں، آنے والا وقت بتائے گا کہ ان کی یہ صلاحیت مملکت پاکستان کے باغیوں کو عبرت کا نمونہ بنا دے گی۔ آج دنیا میں تقریباً ہر ملک ”نان اسٹیٹ ایکٹرز“ کے ہاتھوں پریشان ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ طاقت کے نشے میں دنیا کے بڑے ممالک نے ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کی پرانی کہاوت پر عمل کرکے مظلوم طبقات کو اپنی بقا کی جنگ کے لیے خودکش سوچ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تخریبی کارروائیوں کے لیے ہر قسم کی معلومات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ اگر پاکستانی حکمران اور دنیا کے وہ تمام ممالک جو خوشحال ہیں مل کر اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل کریں ،حق اور انصاف کا ساتھ دیں، معاشی عدم استحکام ختم کریں، فلاحی مملکت کے بنیادی اصولوں پر عمل کریں تو دنیا آج بھی پُرامن ہوسکتی ہے۔ افسوس بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اور دنیا بڑی تیزی سے تباہی کی منزلیں طے کرتی نظر آ رہی ہے۔

1 comments:

Anonymous said...

Is Coin Casino Safe & Legit to Make? | CasinoWow
Coin Casino review. Check out the casino, bonuses and live support. 인카지노 Find 제왕 카지노 out if deccasino Coin Casino is legit and safe to make?

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔